قرآن کی کسی آیت ، دعا یا اللہ کے نام کے زریعے اللہ کو مدد کے لئے مسلسل پکارنا وظیفہ ہے ۔ وظیفہ اور دعا میں یہ فرق ہے کہ دعا میں فرد اللہ کو ایک بار پکار کر اس بات کا یقین کر لیتا ہے کہ اب اللہ اس کی مشکلات کو آسان فرامائیں گے جبکہ وظیفہ میں مسلمان مسلسل اپنے رب کو پکارتا رہتا ہے تاکہ قرآن کی آیات کی برکت سے اللہ کی ذات جلد دعا کو قبول فرمالیں ۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وظیفہ کرنا درست عمل نہیں جبکہ ہم پہلے آپ کو بتا چکے ہیں کہ اللہ کو مسلسل مدد کے لئے پکارنا وظیفہ ہے اور یہ بات قدرتی ہے کہ جب کوئی مسلمان پریشان ہوتا ہے تو وہ اللہ کو شعوری یا لاشعوری طور پر مدد کے لئے ضرور پکارتا ہے ۔
ہمارئے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی جب پریشان ہوتے تو وہ یاحی یا قیوم برحمتک استغیث کے زریعے اللہ کو پکارتے تھے ۔
اس کے علاوہ روزانہ نبی پاک کی ذات اقدس پر 10 مرتبہ درود پاک پڑھنا ، نماز کے بعد تسبیح فاطمہ پڑھنا ، فرض نماز کے بعد ایت الکرسی پڑھنا ، جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنا ، رات کو سورہ ملک پڑھنا یہ سب وظائف نہیں تو کیا ہیں ۔
وظیفہ کرنا کوئی غلط بات نہیں کیونکہ وظیفہ اللہ کو پکارنے کا نام ہے لہذا کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد کو اللہ کا ذکر کرنے سے منع نہیں کر سکتا ۔
اور جو بیان کیا گیا ہے سب کے بارے میں حدیث مبارکہ موجود ہے ۔
وظیفہ ایک قدیم اسلامی رسم ہے جو صحابہ اکرام کے دور سے لے کر آج تک قائم رہے اور یہ ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ کوئی بھی شخص کسی بھی مسلمان کو اللہ کو پکارنے سے روکنے کی ہمت نہیں کر سکتا ۔
لیکن بزرگوں نے وظیفہ کے لئے بہت سی ضروری شرائط کو مدنظر رکھنے کا بھی حکم فرمایا ہے اور ان میں سب سے ذیادہ ضروری یہ ہے کہ وظیفہ قرآن میں سے ہو اور اس میں قرآن کی آیات کو اسی طریقہ سے پڑھا جائے جس طرح کہ وہ قرآن میں ہے ۔
Wazifa Karne Ka Maqsad ?
سبھی اولیاء قرآنی وظائف کرتے رہے ہیں اور مریدین کو بھی وظائف کرنے کا کہتے ہیں اس کی دو بڑی وجوہات تھی ۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وظائف کروانے کی وجہ سے وہ مرید گناہوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے کیونکہ اولیاء اللہ نے وظائف کی شرائط ہی ایسی رکھی تھی کہ کسی بھی صورت ان سے شرعی احکامات کی پابندی نہ چھوٹے اور اس طرح اولیاء اللہ اپنے مریدوں کی نفسیاتی طور پر اصلاح کرتے تھے اور آہستہ آہستہ وہ مرید تمام شرعی احکامات کی پابندی کرنے کے عادی ہو جایا کرتے تھے ۔ وظیفہ کا مقصد محض نفسیاتی طور پر مسلمانوں کی اصلاح کرنا نہیں تھا بلکہ وظیفہ کے دوران جو قرآنی آیات پڑھی جاتی مریدین کو وہ بھی یاد ہو جاتی ، ان قرآنی آیات میں جو احکامات ہوتے ان پر بھی مریدین عمل پیرا ہوتے اور ان پر وظیفہ کے دوران ورد کی جانے والی آیات کا روحانی فیض بھی ظاہر ہوتا ۔
کیونکہ کہ حدیث مبارکہ کے مطابق قرآن کا ایک حرف پڑھنے سے 10 نیکیاں ملتی ہیں اور 10 گناہوں کی معافی ملتی ہے اور 10 درجات بھی بلند ہوتے ہیں اور جب کسی فرد کے گناہ کم ہو جاتے ہیں تو اس پر اللہ کا فیض ضرور جاری ہوتا ہے یعنی اس فرد کی دعا اللہ کی بارگاہ میں ضرور پوری ہوتی ہے ۔
Wazifa Se Dar Laghna
بعض لوگوں کو اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ وظیفہ کے دوران اکثر جنات اور شیاطین نظر آکر فرد کو ڈراتے ہیں جسکی وجہ سے بعض لوگ پاگل ہو جاتے ہیں اور بعض کو تو دل کا دورا پڑھ جاتا ہے جسکی وجہ سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ معاشرے میں وظیفہ کے حوالے سے ایسی بہت سی کہانیاں موجود ہیں بلکہ ذیادہ تر لوگ اسی بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وظیفہ کی وجہ سے لوگ پاگل بھی ہو جاتے ہیں ۔ ہمارےمشاہدات کے مطابق ایساء حقیقت میں بہت سے افراد کے ساتھ ہوا بھی ہے اور اسی وجہ سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وظیفہ کسی کامل فرد کی اجازت سے شروع کرنا چاہئیے ۔
اب ہم آپ کو اس غلط نظریہ کی حقیقت کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھیں کہ وظیفہ اللہ کی عبادت ہے اور اللہ کی عبادت کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ۔
عبادات کا حکم اور نفلی عبادات کی اجازت ہمیں ہمارئے نبی نے کئی سو سال پہلے عطا فرمائی تھی ۔اب نبی پاک کی اجازت ہونے کے باوجود کسی دوسرئے شخص سے اجازت طلب کرنے کا مطلب آپ خود سمجھ سکتے ہیں ۔
قدیم زمانے میں جب کسی بزرگ سے وظیفہ کی اجازت طلب کی جاتی تھی تو اس کا مطلب رہمنائی حاصل کرنا تھا یعنی جس بزرگ سے وظیفہ کی اجازت طلب کی جاتی تھی وہ سب سے پہلے مسلمان کو توحید اور رسالت کی سمجھ دیتا اور اس کے بعد وہ وظیفہ میں پڑھی جانے والی آیت کا معنی مفہوم اور مقصد سمھجتا اور اس کے علاوہ وہ برزگ یہ بھی بتاتا کہ اگر وظیفہ کے دوران خوف محسوس ہوتو اس کا کیامطلب ہے لہذا بیان کی گئی باتوں کو اجازت کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا جو کہ اجازت نہیں صرف رہنمائی ہے جو کہ روحانیت کے طالب کے لئے ضروری ہے ۔
لہذا قرآن پڑھنے ، نماز پڑھنے یا اللہ کو پکارنے کے لئے کسی کی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے آپ کے سب سے بڑئے مرشد نبی پاک کی ذات نے آپ کو پہلے ہی ہر نیک کام کی اجازت دی ہے اور نبی پاک کی اجازت کے بعد کسی کی اجازت معنی نہیں رکھتی ۔
اب رہی بات کہ وظیفہ کے دوران ڈرنے کی تو جو فرد وظیفہ کو سمجھے بغیر وظیفہ کرے گا تو اس کو ڈر تو لگے گا ۔
اب ڈر کیا ہے ؟ اصل میں وظیفہ کے دوران محسوس ہونے والا ڈر محض نفسیاتی ہوتا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ آپ نے بچپن سے آج تک جنات ، چڑیل اور بھوتوں کی جو جو کہانی سنی ہیں یا آپ کے ذہن نے بھوتوں کے بارے میں جو جو خیالات اخذ کیے ہیں وہ سب آپ کے لاشعور میں موجود ہیں ۔ اصل میں وظیفہ ایک پابندی سے کیا جانے والا عمل ہے دوسرے الفاظ میں ہم وظیفہ کو مراقبہ کی ایک قسم کہتے ہیں ۔ جب کوئی بھی عمل پابندی سے کیا جائے تو اس سے انسان کے لاشعور کو حرکت ملتی ہے ۔
لہذا جب انسان کے لا شعور کو حرکت ملتی ہے تو اس کی سے وظیفہ کے دوران جاگتی آنکھوں خواب دیکھائی دینے لگے ہیں اس حالت کو استغراق کہتے ہیں ۔ لہذا استغراق کی حالت میں انسان کے لاشعور سے خوف ، بُری عادات اور بہچپن کی بے کار یادیں روپ بدل کر انسان کو دیکھائی دینے لگتی ہیں ۔
جب کوئی عام انسان وظیفہ شروع کرتا ہے تو اس کے زہن میں یہ خیالات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ کہیں بھوت نہ آجائے ۔ انسان کے ذہن میں جیسے ہی بھوت کا تصور آئے گا تو اس وجہ سے اسکے ذہن میں بچپن سے جوانی تک کی بھوتوں کی یادیں خود بخود اخذ ہونا شروع ہو جائیں گی اور جیسے ہی وظیفہ کے دوران کوئی شخص غنودگی میں جائے گا تو اسے بھوتوں کی یادوں میں سے کچھ یادیں روپ بدل کر دیکھائی دیں گی جو کہ قدرتی عمل ہے اور اس کا روحانیت ، بھوت یا روحوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ محض نفسیاتی ہے اور اسی نفسیات کو سچ مان کر بے شمار لوگوں نے چلہ کشی کے دوران اپنی جانیں بھی گنوائی ہیں ۔
شائد اسی وجہ سے بزرگوں نے وظیفہ کرنے سے پہلے اجازت طلب کرنے پر زور دیا تاکہ کسی طالب کو وظیفہ کے حوالے سے صحیح رہنمائی حاصل ہو سکے اور وہ حقیقت اور فریب میں فرق کرنے کے قابل ہو سکے ۔
لیکن یاد رہے کہ اجازت کا مطلب صرف روحانی رہنمائی ہے جس کی تفصیل ہم آپ کو بتا اور سمجھا چکے ہیں ۔
Hisar Kya Hota Hai ?
حصار اس دائرے کو کہتے ہیں جو اکثر لوگ وظیفہ کرنے سے پہلے اپنے گرد لگاتے ہیں ۔ تاکہ جنات ، بھوت یا کوئی شیطان اس دائرے کے اندر نہ داخل ہو سکے ۔ ہمارا خیال ہے کہ حصار کرنا شائد فرد کے ایمان کی کمزوری ہے کیونکہ آپ وظیفہ کے دوران اپنے رب کو پکارتے ہیں تو کیا آپ کو یہ لگتا ہے کہ اللہ کو پکارنے کے دوران آپ کو جنات ، بھوت ، روحیں یا شیطاطین نقصان دیں گے اور اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو یہ آپ کے ایمان کی کمزوری ہے ۔
اصل میں قدیم زمانے میں لوگ جنات ، بھوت پریت اور روحوں سے بہت ذیادہ ڈرتے تھے اور لوگ یہ بھی سمھجتے تھے کہ وظیفہ کے دوران جنات سامنے آکر دھمکاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ پاگل ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں لیکن لوگوں کے اس غلط یقین کو ختم کرنا بھی بزرگوں کے لئے ممکن نہ تھا ، لہذا اسی وجہ سے بزرگوں نے مسلمانوں کو وظیفہ کے لئے مطمعین کرنے کا ایک طریقہ اختیار کیا جسے حصار کا نام دیا ۔ بزرگوں نے لوگوں کے زہنوں میں یہ سوچ ڈالی کہ حصار کے اندر کسی قسم کا جن ، بھوت پریت یا شیطان داخل نہیں ہو سکے گا جو حصار میں داخل ہوگا وہ جل جائے گا ، لہذا اسی حوصلہ کی وجہ سے بعض مسلمان خیر و عافیت سے وظیفہ کر پاتے تھے۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وظیفہ کے دوران اگر آپ کو کوئی غیر مرئی چیز دیکھائی دیتی ہے تو وہ محض آپ کا ایک خیال ہے ،
لوگ اپنے ہی خیال سے ڈر نہ جائیں اس لئے بزرگوں نے حصار کی ترکیب اپنائی
یاد رہے کہ جب آپ اللہ و پکارتے ہیں تو آپ اس وقت اللہ کی پناہ میں ہوتے ہیں اور اللہ کی پناہ میں رہ کر ڈرنا ایمان کی کمزوری ہے ۔ اس لئے وظیفہ کرنے سے پہلے حصار کرنا کوئی ضروری شرط نہیں ۔
امید ہے کہ وظیفہ کی حقیقت کے بارے میں آپ کو چند باتیں سمجھ آئی ہوں گی ۔ اس کے علاوہ وظیفہ کے بارے میں آپ کا کوئی سوال ہو تو آپ ہمیں میسج کریں انشاء اللہ آپ کے ہر سوال پر ہم تٖفصیلی آرٹیکل ضرور دیں گے ۔